nowruz in islam
نوروز اور اسلام: ایک تفصیلی جائزہ
نوروز فارسی تقویم کے مطابق نئے سال کی ابتدا کا تہوار ہے، جو کہ 20 مارچ کے قریب بہار کی آمد کے موقع پر منایا جاتا ہے۔ یہ تہوار بنیادی طور پر ایرانی، تاجک، کرد، افغان، اور وسطی ایشیائی اقوام میں صدیوں سے رائج ہے۔ تاہم، اسلام میں نوروز کی حقیقت اور اس کی شرعی حیثیت پر علماء کی مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
نوروز کی تاریخی حیثیت
نوروز کی جڑیں زرتشتی مذہب سے جا کر ملتی ہیں، جو کہ اسلام سے پہلے قدیم ایران میں رائج تھا۔ اس دن کو نیکی، روشنی اور زندگی کی تجدید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ مختلف روایات کے مطابق، نوروز کو درج ذیل تاریخی واقعات سے بھی جوڑا جاتا ہے:
حضرت آدمؑ کی تخلیق اسی دن ہوئی۔
حضرت نوحؑ کی کشتی جودی پہاڑ پر اسی دن ٹھہری۔
حضرت علیؑ کی خلافت کا آغاز بھی اسی دن سے جڑا ہوا بتایا جاتا ہے۔
تاہم، ان روایات کی مستند حیثیت پر محدثین اور فقہاء کا اختلاف پایا جاتا ہے۔
اسلام میں نوروز کی حیثیت
1. نوروز اور حدیث
اسلام میں تمام اعمال کی بنیاد قرآن و حدیث پر ہوتی ہے۔ نوروز کے حوالے سے چند ضعیف اور غیر مستند احادیث موجود ہیں، جن کی بنیاد پر بعض لوگ اس تہوار کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں، جبکہ جمہور علماء ان روایات کو قابل قبول نہیں سمجھتے۔
حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ دو تہوار (نوروز اور مہرجان) مناتے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
“اللہ نے تمہیں ان کے بدلے میں دو بہتر دن عطا فرمائے ہیں، عید الفطر اور عید الاضحی۔” (سنن ابی داود: 1134)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں صرف دو ہی تہوار مشروع ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی۔
2. فقہاء کا مؤقف
اہل سنت علماء کی اکثریت کا کہنا ہے کہ نوروز ایک غیر اسلامی تہوار ہے اور اسے مذہبی طور پر منانا بدعت میں شمار ہوگا۔
حنفی، مالکی، شافعی، اور حنبلی فقہاء کا عمومی مؤقف یہ ہے کہ نوروز کو بطور تہوار اپنانا تشبہ بالکفار (غیر مسلموں کی مشابہت) کے زمرے میں آ سکتا ہے، جو کہ ممنوع ہے۔
3. شیعہ مؤقف
بعض شیعہ روایات میں نوروز کے دن کو اہل بیتؑ کے لیے مبارک دن کہا گیا ہے، لیکن یہ روایات تاریخی اور روایتی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کی کوئی شرعی بنیاد نہیں۔
کیا مسلمان نوروز منا سکتے ہیں؟
✅ اجازت ہے اگر:
کوئی شخص اسے خالص ثقافتی، موسمی یا خاندانی روایات کے طور پر مناتا ہے، لیکن اس میں کسی مذہبی رسم و رواج کو شامل نہیں کرتا۔
اسے عید یا عبادت کا درجہ نہیں دیتا بلکہ ایک عام دن کی طرح سمجھتا ہے۔
❌ منع ہے اگر:
اسے مذہبی طور پر منایا جائے یا اسلامی عید کے برابر سمجھا جائے۔
غیر اسلامی رسومات جیسے آگ جلانا، مخصوص دعائیں پڑھنا یا دیگر خرافات شامل کی جائیں۔
نتیجہ
اسلام میں نوروز بطور تہوار منانے کی کوئی شرعی دلیل نہیں، بلکہ اسے اپنانا بدعت اور تشبہ بالکفار میں آ سکتا ہے۔ تاہم، اگر کوئی شخص اسے محض ثقافتی طور پر منائے، جیسے کہ نئے موسم کے آغاز پر خوشی کا اظہار کرنا، بغیر کسی غیر اسلامی رسم کے، تو اس میں سخت ممانعت نہیں۔ لیکن احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی تہواروں (عیدین) پر زیادہ توجہ دیں اور ان ہی کو زیادہ اہمیت دیں۔