یومِ آزادی پر بچوں کے لیے مسلم قومی رہنماؤں پر تقاریر
10 muslim freedom fighter speech for kids on this independence day
اس یوم آزادی 2023 پر اپنے طلبہ کو اپنے اسلاف سے متعارف کرائیے آسان تقاریر کے ساتھ۔
مولانہ ابوالکلام آزاد-
maulana abulkalam azad
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلمان رہنماؤں کا کرادر۔۔
اس عنوان کے تحت آج میں مولان ابولکلام آزاد جو کہ آزاز ہندوستان کےپہلے وزیر تعلیم تھے ان کی زندگی کا ایک اہم قصہ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا/چاہتی ہوں بغور سماعت فرمائیے۔
مولانا ابوالکلام آزاد تحریک آزادی کے اہم ستون تھے۔انھوں نے ملک کو آزاد کرانے کے لیے اپنی تمام تر طاقت جھونک دی تھی۔ آزادی کی اس جدوجہد میں ایک بار برطانوی حکومت نے انہیں پکڑ کر احمد آباد کی جیل میں بند کر دیا۔
مولانا صرف ایک سادہ لوح اور جدّت پسند شخص ہی نہیں تھے، انہوں نے جیل کی زندگی بھی بڑی آسانی سے قبول کی۔ اس دوران ان کی اہلیہ کا کولکتہ میں انتقال ہو گیا۔انھوں نے یہ دکھ سکون سے برداشت کیا۔ محب ّ وطن افراد نے بیگم آزاد کی یاد میں ایک مجسمہ بنانے کا فیصلہ کیا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے بیگم آزاد میموریل فنڈ بنا کر رقم جمع کرنا شروع کر دی۔
رفتہ رفتہ خزانے میں رقم جمع ہوتی رہی اور جب مولانا آزاد جیل سے باہر آئے تو اس میں بڑی رقم جمع ہو چکی تھی۔ آزاد کی رہائی کے بعد انہیں اس فنڈ کے بارے میں بتایا گیا۔ جب انھیں اس طرح کے چندہ جمع کرنے کے پیچھے کا مقصد معلوم ہوا تو وہ بہت ناراض ہوا۔انھوں نے کہا یہ سب ابھی بند کرو۔ فنڈ میں اب تک جمع کی گئی رقم الہ آباد کے کملا نہرو اسپتال کو دی جانی چاہیے۔
مولانا جی کے اس نکتے کو سر پر اٹھا لیا گیا اور جمع شدہ تمام رقم کملا نہرو ہسپتال کو دے دی گئی۔ یہ مولانا ابوالکلام آزاد کی حب الوطنی تھی جس نے انہیں ملک کی دولت کو مفاد عامہ میں خرچ کرنے کی تحریک دی۔
مولانا کا یہ عمل آج کے سیاست دانوں کے لیے ایک پیغام ہے جو قومی دولت کو بغیر کسی ہچکچاہٹ اور شرم کے اپنی آسائشوں پر خرچ کرتے ہیں۔ اگر قوم کی دولت ایمانداری سے قوم پر خرچ کی جائے تو وہ دن دور نہیں جب ملک میں ترقی کی سنہری گنگا بہنے لگے۔
بس اتنا کہکر میں اپنی تقریر ختم کرتا ہوں۔
جئے ہند
خاں عبدالغفار خان-
Khan Abdul gaffar khan
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلمان رہنماؤں کا کرادر۔۔
۔اسی عنوان کے تحت بنام سرھدی گاندھی جن کو ہم پہنچاتے ہیں وہ ہیں خان عبدالغفّار خان ہیں۔ جنگ آزادی میں انھوں نے کیا رول ادا کیا اس کے بارے میں بتانے کے لیے میں یہاں کھڑا ہوں۔
عبدالغفار خان نہ صرف قد و قامت بلکہ تحریک آزادی میں تعاون اور قربانیوں سے بلند پایہ آزادی کے جنگجو تھے۔ غفار خان نے اپنی زندگی ملک کی بہتری کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ گاندھی کے عدم تشدد کے اصولوں کی وجہ سے انہیں سرحدی گاندھی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
عبدالغفار عبدالغفار خان1890 میں پشاور کے ایک گاؤں اتمانزئی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام بہرام خان تھا۔ غفارخا کے والدین ناخواندہ ہونے کے باوجود اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دینا چاہتا تھے، اس لیے انھوں نے عبدل کو پشاور کے ایک مشنری اسکول بھیج دیا۔ جب وہ بڑےہوےتو عبدل کو برٹش انڈین آرمی میں منتخب کیا گیا لیکن ہندوستانیوں کے ساتھ برے سلوک کی وجہ سے انھوں نے فوج چھوڑ دی۔
اس دور میں پٹھان غیر تعلیم یافتہ اور غیر منظم تھے۔اس سے بڑھ کر انگریز انہیں پسماندہ دیکھنا چاہتے تھے تاکہ وہ ان پر آسانی سے قابو پا سکیں۔ عبدالغفار عبدالغفار خان نے اس بات کو بھانپ لیا اور بچوں اور عورتوں کے لیے اسکول کھولے۔ اس کے کام کی وجہ سے انھیں قید بھی کیا گیا۔اور ان پر تشدد کیا گیا۔ انگریزوں کی دھمکیوں کے باوجود سکول خوب چل رہا تھا۔
جیل سے رہائی کے بعد عبدالغفار خان نے ایک قومی رسالہ پختون نکالا جو بہت مشہور ہوا۔
اس دوران شاہ امانت اللہ خان ان کی مدد کو پہنچے۔ انگریزوں اور مقامی ملاّؤں نے ان ترقیاتی کاموں میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ عبدالغفار خان 1928 میں ہندوستان آئے اور گاندھی جی ن اور نہرو جی سے ملاقات کی۔ ان سے متاثر ہو کر عبدالغفار خان نے سماجی تبدیلی کے لیے کوششیں شروع کیں اور اس کے لیے ایک تنظیم بنائی، اس تنظیم کا نام خدائی خدمتگار تھا۔ اس تنظیم کے ہر رکن کو انہوں نے خدا کے نام پر عدم تشدد، بھائی چارے اور انسانی خدمت کا حلف دلایا۔
انگریزوں نے ہر طرح سے اس تحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے حملہ کر کے بہت سے لوگوں کو قتل کیا لیکن پٹھانوں نے اپنی قسمیں نہ توڑیں۔ اس کے لیے خان عبدالغفار خان کو دوبارہ قید اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ عبدالغفار کا مسلم لیگ سے کوئی مدد نہیں ملی لیکن کانگریس نے اس شرط پر مدد کی کہ پٹھان جدوجہد آزادی میں حصہ لیں۔
کانگریس نے ہندوستان، انگلینڈ اور امریکہ میں پٹھانوں پر مظالم بند کرنے کا مطالبہ کیا اور کامیاب بھی ہوے۔ طویل عرصہ جیل میں رہنے کے بعد 1945 میں جیل سے رہا ہوئے۔
خان عبدالغفار خان کا انتقال 1988 میں ہوا اور ان کے جنازے میں بہت سے لوگ آئے۔
میری تقریر یہاں ختم ہوتی ہے۔
جئے ہند۔
ریشمی رومال تحریک( علمہء دیوبند)-
reshami rumal teharik
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں کا کرادر۔۔
اسی عنوان کے تحت ریشمی رومال تحریک کے بانی – شیخ الہند مولانہ محمود حسن دیوبندی ان کے متعلق معلومات کو پیش کرنے جا رہی/رہا ہوں ۔ بغور سماعت فرمائیں
ملک کی آزادی کے لیے کئی بہادر بیٹوں نے اپنی جانو کا نذرانہ پیش کیا۔ کئی ہیرو ایسے تھے جو اپنے اپنے انداز میں تحریک چلاتے رہے۔ آزادی کی اس تحریک میں مشتعل افراد نے ذات پات اور مذہب سے اوپر اٹھ کر آزادی کا نعرہ لگایا۔ تحریک آزادی میں دنیا کے مشہور اسلامی تعلیمی ادارے دارالعلوم دیوبند کا تعاون کم نہیں تھا۔ یہاں سے شروع ہونے والی ’تحریکِ ریشمی روم‘ نے انگریزوں کے دانت کھٹے کر دیے تھے۔
اس کے تحت رومال پر لکھ کر ادھر ادھر خفیہ پیغامات بھیجے جاتے تھے، تاکہ برطانوی فوج کو تحریک کے تحت ہونے والی سرگرمیوں کی خبر نہ مل سکے۔
ایسٹ انڈئیاں کمپنی کے سہارے ہندوستان کو اپنا غلام بنا کر ہندوستانیئوں پر ظلم وستم کرنے والے انگریزوں کو باہر نکال پھینکنے کے لیے جن لوگوں نے اپنی جوانی ، خاندان ، جان و مال ، نچھاور کر دیا وہ نہ ہندو تھے ،نہ مسلمان اور اور نہ ہی سکھ ، بلکہ وہ تو بس ہندوستانی تھے۔ .جن کا آزاد ہندوستان کی ہوا میں سانس لینے والا ہر شخص ہمیشہ مقروض رہے گا ۔اور جب بھی ہم آزاد ہندوستان کی بات کریں گے تو ان کا نام ضرور لیا جائے گا۔
ہندوستان کے انہی فرزندوں میں سے ایک مولانا محمود حسن دیوبندی شیخ الہند ہیں جنہوں نے تحریک ریشمی رومال شروع کی اور انگریزوں کے پسینے چھوٹ گئے۔
مولانا محمود حسن دیوبندی شیخ الہند جنہوں نے تحریک ریشمی رومال شروع کرکے جنگ آزادی میں اہم کردار ادا کیا، دارالعلوم دیوبند کے بانی رکن مولانا ذوالفقار علی دیوبندی کے ہاں رائے بریلی میں 1851 میں پیدا ہوئے۔ شیخ الہند نے اپنے چچا مولانا مہتاب علی سے ابتدائی تربیت حاصل کی۔ 6 مئی 1866 کو دارالعلوم دیوبند کے قیام کے وقت شیخ الہند دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم بنے۔
ملک کو آزاد کرانے کے لیے ریشمی رومال تحریک شروع کی گئی جو کہ ہندوستان کو آزاد کرانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر منظم ہونے والی پہلی تحریک تھی۔ اس تحریک کے تحت تمام خفیہ منصوبے ریشمی رومال پر بھیجے گئے تاکہ فرنگی راج کو تباہ کیا جا سکے۔ ریشمی رومال کی تحریک 1916 میں اپنے عروج پر تھی۔
اس تحریک کو اپنی حکومت کی بنیادوں کو پاش پاش ہوتے دیکھ کر فرنگیوں نے شیخ ال ہند مولانا محمود حسن کو ان کے ساتھیوں مولانا عزیر گل، حکیم نصرت حسین اور مولانا وحید احمد سمیت گرفتار کر کے بحیرہ روم کے جزیرے مالٹا کی جنگی جیلوں میں ڈال دیا، جہاں شیخ ال ہند کو اور ان کے ساتھیوں نے چار سال جیل میں گزارے۔
سزا بھگتنے کے بعدشیخ الہند ہند وستان پہنچے اور مہاتما گاندھی سے ملاقات کی اور جدوجہد آزادی کو ایک نئی جہت دی۔ شیخ الہند کی آزادی میں دی گئی شراکت کو حکومت ہند نے نظر انداز نہیں کیا جس کی وجہ سے حال ہی میں صدرجمہوریہ نے وگیان بھون دہلی میں شیخ الہند کی آزادی کی تحریک ریشمی رومل آندولن کے نام سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا ہے۔
یہ تھی ریشمی رومال تحریک اور ہمارے علماء۔
اتنی معلومات دیکر میں اپنی جگہ لیتی/لیتا ہوں ۔جئے ہند
شہید اشفا اللہ خان-
Ashfaq Ullah khan
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں کا کرادر۔۔
۔اسی عنوان کے تحت شہید اشفا ق اللہ خان کے متعلق معلومات کو پیش کرنے جا رہی/رہا ہوں ۔ بغور سماعت فرمائیں۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب ہندوستان آزاد نہیں ہوا تھا۔ ایک بچے کے اندر حب الوطنی کا جذبہ بھرا ہوا تھا۔ وہ ان لوگوں کی مدد کرتا تھا جو آزادی کے دیوانے تھے اور غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لیے محنت کر رہے تھے۔ جب اس کی ماں نے اپنے بیٹے کو حب الوطنی کے رنگوں میں رنگے دیکھا تو وہ بے حد خوش ہوگئی۔ لیکن ماں کے ذہن میں یہ خوف بھی تھا کہ کہیں وہ پولیس کے ہاتھوں پکڑا گیا، تو وہ گھبرا جائیگا اور چھپ کر کام کرنے والوں کے نام اور پتے ظاہر نہ کر دیں۔
ایک دن جب ماں نے اپنے خوف کی بات لڑکے کو بتائی تو اس نے بہت مضبوطی سے کہا، ماں بے فکر رہو۔ میں نہیں گھبراؤں گا۔” لڑکا ابھی بچہ تھا۔ ماں اس پر یقین نہیں کر سکتی تھی۔ کہا، میں تمہارا امتحان لوں گا، اس کے بعد ماں نے چراغ جلا کر کہا، اس پر اپنی ہتھیلی رکھو، لڑکا ایک لمحے کے لیے بھی نہ جھجکا۔ اس نے فوراً اپنی ہتھیلی چراغ کے شعلے پر رکھ دی۔ ہتھیلی جلتی رہی مگر لڑکے کے منہ سے آہ تک نہ نکلا۔
وہ مسکراتا رہا۔ بچے کی ہمت دیکھ کر ماں کا دل بھر آیا۔ اس نے اسے سینے سے لگا لیا اور دل سے دعا دی۔
اب وہ لڑکا دوہرے جوش سے اپنے کام میں لگ گیا۔ بعد میں یہ لڑکا ہندوستان کا عظیم انقلابی اشفاق اللہ بن گیا۔ پکڑے جانے کے بعد اشفاق کو کاکوری سازش کیس میں سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن یہ سزا بھی اس کی بلند روح کو پست نہ کر سکی۔ جب اس کے گلے میں پھندا ڈالا جا رہا تھا تو وہ اتنا خوش تھا جیسے اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش پوری ہو رہی ہو۔ وہ ہنستا اور گاتا تھا،
اے مادر وطن میں تیری خدمت کروں گا،
پھانسی ملے یا ہو عمر قید مجھکو،
میں بیڑیاں بجا بجا کر تیری پوجا کروں گا۔
صرف 27 سال کی عمر میں 19 دسمبر 1927 کو اشفاق اللہ خان کو فیض آباد میں پھانسی دی گئی۔
سلام ایسے شہیدوں پر اور انکی ماؤں پر ۔
اتنی معلومات دیکر میں اپنی جگہ لیتی/لیتا ہوں ۔جئے ہند
فاطمہ شیخ-
Fatima Shaikh
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں کا کرادر۔۔
۔اسی عنوان کے تحت پہلی مسلم معلمہ محترمہ فاطمہ شیخ کے متعلق معلومات کو پیش کرنے جا رہی/رہا ہوں ۔ بغور سماعت فرمائیں۔
فاطمہ شیخ 9 جنوری 1831 کو پونے میں پیدا ہوئیں۔ وہ اپنے بھائی عثمان کے ساتھ رہتی تھی۔ جب پھولے کو ان کے والد نے پسماندہ اور غریبوں کی تعلیم کی مخالفت کرنے پر نکال باہر کیا تو عثمان شیخ اور فاطمہ نے انہیں پناہ دی۔ فاطمہ شیخ نے پونے میں 1848 میں مہاتما پھولے اور ساوتری بائی پھولے کے شروع کردہ پہلے اسکول میں بطور استاد کام کیا۔
شیخ کے گھر پر ایک سودیشی لائبریری قائم کی گئی۔ یہیں سے فاطمہ شیخ اور پھولے جوڑے نے معاشرے کے غریب، پسماندہ طبقات اور مسلم خواتین کو تعلیم دینے کا کام شروع کیا۔ انھوں نے ان لوگوں کی تعلیم کے لیے کام کیا جو طبقے، مذہب اور جنس کی وجہ سے تعلیم سے محروم تھے۔
فاطمہ شیخ نے زندگی بھر مساوات کے اصول کے فروغ کے لیے کام کیا۔ انہوں نے گھر گھر جا کر تعلیم کی اہمیت کو سمجھانے کا کام کیا۔ ساوتری بائی پھولے کی طرح فاطمہ شیخ کو بھی اس زمانے میں سماج کے قائم طبقے کا شکار ہونا پڑا۔ فاطمہ شیخ نے ستیہ شودک سماج کے لیے بھی کام کیا۔ 2014 میں حکومت ہند نے اردو کتابوں میں فاطمہ شیخ کا ایک باب اور تصویر شامل کی۔
ساوتری بائی پھولے نے 10 اکتوبر 1856 کو مہاتما پھولے کو ایک خط لکھا۔ دیکھا جاتا ہے کہ انھوں نے اس خط میں فاطمہ شیخ کا ذکر کیا ہے۔ ساوتری بائی پھولے نے اپنی صحت کے بارے میں جوتیبا پھولے کو ایک خط لکھا۔ اس خط میں ساوتری بائی پھولے نے لکھا ہے کہ ’’فاطمہ کو تکلیف ہو سکتی ہے لیکن وہ شکایت نہیں کرے گی‘‘۔
یہ تھی پہلی مسلم معلمہ جنھوں تعلیم کے فروغ کے تکالیف اٹھائیں ۔
اتنی معلومات دیکر میں اپنی جگہ لیتی/لیتا ہوں ۔جئے ہند
بہادر شاہ ظفر-
bahadur shah Zafar
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں کا کرادر۔۔
۔اسی عنوان کے تحت آخری مغل شہنشا ہ اور پہلی جنگ آزادی 1857 کی قیادت کرنے والے بہادر شاہ ظفر کے متعلق معلومات کو پیش کرنے جا رہی/رہا ہوں ۔ بغور سماعت فرمائیں۔
اپنے والد کی وفات کے بعد، ظفر کو ستمبر 1837 میں لال قلعہ میں تاج پہنایا گیا اور بہادر شاہ ثانی کا خطاب دیا گیا۔ ان کے دور حکومت میں کوئی خاص کام نہیں کیا گیا، وہ زیادہ تر شعری مجالس میں شریک ہوتے تھے اور اپنے رسمی دربار کے ساتھ نظمیں لکھتے تھے، اردو کے چند نامور شعراء جیسے مرزا غالب اور استاد جاوق۔
بہادر شاہ ظفر 1857 کے بغاوت اور اس کے بعد کے کردار کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جب ہندوستانی سپاہیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت کی تو برطانوی فوجی بھی منحرف ہوگئے۔ اس کے بعد باغی بھی دہلی پہنچ گئے۔ دہلی پہنچنے کے بعد، باغیوں نے ظفر سے ان کی قیادت کرنے کی درخواست کی اور انھیں اپنا بادشاہ قرار دیا۔ اپنے لوگوں کے ساتھ کچھ غور و خوض کے بعد، بادشاہ نے ان کی درخواست قبول کر لی۔
لیکن جیسے جیسے جنگ آگے بڑھی، کمپنی نے دہلی پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ ہندوستانی سپاہیوں کو شکست ہوئی اور بہادر شاہ ظفر ہمایوں کے مقبرے کی طرف بھاگے۔ بعد میں انھوں نے ہتھیار ڈال دیے اور انگریزوں نے ان پر مقدمہ چلایا۔ ان کے دو بیٹے اور ایک پوتے کو مارا گیا۔ وہ مقدمے کی سماعت میں قصوروار پاے گیا اور بعد میں انھیں برما جلاوطن کر دیا گیا۔
ء 7 اکتوبر 1858 کو اسے اپنی بیویوں اور دو بیٹوں کے ساتھ بیل گاڑیوں پر برما بھیج دیا گیا۔کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس ملک پر صدیوں تک حکمرانی کرنے والے مغلیہ سلطنت کے آخری شہنشاہ کو بیل گاڑی پر بیٹھ کر دارالحکومت چھوڑنا پڑے گا۔
جب وہ برما میں قید تھے ان کے لب سے کچھ یوں اشعار نکلے۔
لگتا نہیں ہے جی میرا اجڑے دیار میں
،کس کی بنی ہے عالم نا پائیدار میں
کتنا بد نصیب ہے ظفر دفن کے لیے
دو گز زمیں بھی نہ مل سکی کوئے یا ر میں
اتنی معلومات دیکر میں اپنی جگہ لیتی/لیتا ہوں ۔جئے ہند
بیگم حضرت محل-
begum hazarat mahal
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلمان رہنماؤں کا کرادر۔۔
اس عنوان کے تحت آج میں بیگم حضرت محل کی زندگی کے اہم واقعات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا/چاہتی ہوں بغور سماعت فرمائیے۔
بھارت جنگجوؤں کی سرزمین رہا ہے۔ مردوں سے لے کر خواتین تک، سب نے برطانوی راج سے ملک کی آزادی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ان جنگجوؤں میں سے ایک بیگم حضرت محل تھیں-جنھوں نے 1857ء کی پہلی جنگ آزادی میں اپنی بہترین تنظیم، طاقت اور بہادری سے برطانوی حکومت کو ناکوچنے چبانے پر مجبور کر دیا۔ اودھ کے حکمران واجد علی شاہ کی پہلی بیگم حضرت محل 1857 کی بغاوت میں کودنے والی پہلی خاتون تھیں۔
ایک بار نواب اودھ نےانھیں دیکھا تو ان کی خوبصورتی سے خوفزدہ ہو کر اسے اپنے شاہی حرم میں شامل کر لیا اور اسے اپنی بیوی بنا لیا۔ اس کے بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام برجیس قادر رکھا گیا۔ پھر انہیں ’’حضرت محل‘‘ کا خطاب دیا گیا۔
۔ 1856ء میں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ریاست اودھ پر قبضہ کر لیا اور تاجدار اودھ نواب واجد علی شاہ کو قیدی بنا لیا۔ جس کے بعد بیگم حضرت محل نے اپنے نابالغ بیٹے برجیس قادر کو تخت پر بٹھا کر ریاست اودھ کا اقتدار سنبھالا۔ 7 جولائی 1857 سے وہ انگریزوں کے خلاف میدان جنگ میں اتری۔
وہ ایک ماہر حکمت عملی کی مالک تھی، جن کے پاس فوجی اور جنگی مہارت سمیت بہت سی خوبیاں تھیں۔ انھوں نے اپنی سلطنت کو انگریزوں کے چنگل سے بچانے کے لیے برطانوی فوج کے خلاف بہادری سے لڑا۔
بیگم حضرت محل نے تمام مذاہب کو یکساں دیکھا، انہوں نے کبھی مذہب کی بنیاد پر تفریق نہیں کی، انہوں نے اپنے تمام مذاہب کے سپاہیوں کو بھی یکساں حقوق دیا۔ مورخین کا خیال ہے کہ وہ خود اپنے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے میدان جنگ میں گئی تھیں۔ حضرت محل کی فوج میں خواتین سپاہی بھی شامل تھیں جو ان کی حفاظتی ڈھال تھیں۔
ء1857 میں جب بغاوت شروع ہوئی تو بیگم حضرت محل نے اپنی فوج اور حامیوں کے ساتھ برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف بغاوت شروع کر دی۔ بیگم حضرت محل کی قابل قیادت میں ان کی فوج نے لکھنؤ کے قریب چنہٹ، دلکشہ کے مقام پر جنگ میں انگریزوں کے چھکے چھڑا لیے تھے۔ لکھنؤ کی اس بغاوت میں دلیر بیگم حضرت محل نے صوبہ اودھ کے گونڈہ، فیض آباد، سیلون، سلطان پور، سیتا پور، بہرائچ وغیرہ علاقوں کو انگریزوں سے آزاد کرا کر لکھنؤ پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
مورخین کے مطابق انگریزوں کے خلاف اس لڑائی میں کئی بادشاہوں نے بیگم حضرت محل کا ساتھ دیا۔ بیگم حضرت محل کی عسکری صلاحیتوں سے متاثر ہو کر جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والے نانا صاحب نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اسی دوران راجہ جے لال، راجہ مان سنگھ نے بھی اس جنگ میں رانی حضرت محل کا ساتھ دیا۔
اس جنگ میں حضرت محل نے ہاتھی پر سوار ہو کر اپنی فوج کی قیادت کی، اس خوفناک جنگ کی وجہ سے انگریز لکھنؤ ریذیڈنسی میں چھپنے پر مجبور ہوئے۔ تاہم، بعد میں انگریزوں نے مزید فوج اور ہتھیاروں کے زور پر ایک بار پھر لکھنؤ پر حملہ کیا اور لکھنؤ اور اودھ کے بیشتر حصوں پر قبضہ کر لیا۔ جس کی وجہ سے بیگم حضرت محل کو پیچھے ہٹ کر اپنا محل چھوڑنا پڑا۔
کہا جاتا ہے کہ بیگم حضرت محل پہلی بیگم تھیں جنہوں نے تمام ہندو مسلم بادشاہوں اور اودھ کے لوگوں کے ساتھ مل کر لکھنؤ کی بغاوت میں انگریزوں کو شکست دی۔ بیگم حضرت محل نے سب سے پہلے انگریزوں پر مسلمانوں اور ہندوؤں کے مذہب میں تفرقہ اور نفرت پیدا کرنے کا الزام لگایا۔
مولانا احمد شاہ کو انگریزوں کے ساتھ لڑائی کے دوران قتل کر دیا گیا، جس کے بعد بیگم حضرت محل بالکل اکیلی رہ گئیں اور ان کے پاس اودھ چھوڑنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا۔ اسی دوران انگریزوں نے شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو قید کر کے رنگون بھیج دیا۔ حالات خراب ہو چکے تھے لیکن اس کے بعد بھی حضرت محل نہیں چاہتے تھے کہ وہ انگریزوں کا قیدی بنیں۔ چنانچہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ نیپال چلی گئی۔
نیپال کے بادشاہ رانا جنگ بہادر بھی ان کی ہمت اور عزت نفس سے بہت متاثر ہوئے اس لیے انہوں نے بیگم حضرت محل کو نیپال میں پناہ دی۔ یہاں انھوں نے اپنے بیٹے کے ساتھ ایک عام عورت کی طرح رہنا شروع کیا اور یہیں انھوں نے 1879 میں آخری سانس لی۔ بیگم حضرت محل کی میت کو کھٹمنڈو کی جامع مسجد میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
ایسی دلیر اور بہادر جنگ آزادی کی جنگجو کو ہمارا سلام۔
اتنا کہکر میں اپنی تقریر کتم کرتا /کرتی ہوں۔
جئے ہند
حسرت موہانی-
hasarat mohani
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلمان رہنماؤں کا کرادر۔۔
بہت سے شاعر ایسے ہیں جن کے قلم نے ہندوستانیوں کو انگریزوں کے خلاف اپنی طاقت کے بل بوتے پر لڑنے کی ترغیب دی۔ لیکن آج ہم جس شاعر کی بات کر رہے ہیں وہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ صحافی، سیاستدان اور آزادی پسند بھی رہے ہیں۔
ہم بات کر رہے ہیں ہندوستان کی آزادی کے سچے سپاہی مولانا حسرت موہانی کی جنہوں نے انگریزوں سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور ہمیشہ ان کے خلاف تحریک چلائی۔
آئیے جانتے ہیں اس آزادی پسند کے بارے میں کہ اس نے انگریزوں کے خلاف اپنی لڑائی کیسے جاری رکھی۔تو آئیے جانتے ہیں ایک ایسے آزادی پسند جنگجو کے بارے میں۔
مولانا حسرت موہانی اتر پردیش کے اناؤ ضلع کے قصبہ موہان میں 1875 میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید فضل الحسن تھا لیکن لوگ انہیں حسرت کے نام سے پکارتے تھے۔ موہان گاؤں میں پیدا ہونے کی وجہ سے ان کا نام موہانی پڑا اور وہ حسرت موہانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی ابتدائی تربیت گھر پر ہوئی۔ انہیں بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا، شاید اسی وجہ سے وہ ریاستی سطح کے امتحان میں بھی ٹاپ کرنے میں کامیاب رہے۔
اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور کالج سے ہی آزادی کی مہم میں حصہ لیتے رہے۔ نتحریک آزادی کی وجہ سے حسرت موہانی کو کئی بار کالج سے نکال بھی دیا گیا لیکن اس آزادی پسند کا جنون بھی کم نہ ہوا۔ اور اسی وجہ سے انہیں 1903 میں قید بھی کیا گیا۔
اسی دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں آزادی کے ہیرو کے طور پر ابھرنے والے مولانا علی جوہرن اور مولانا شوکت علی سے رابطہ رکھا ۔ ء1903 میں علی گڑھ سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور گریجویشن مکمل کرنے کے بعد 1903 میں علی گڑھ سے ایک رسالہ ’’اردو ِ موعلاّ‘‘ نکالا جو انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف تھا۔
کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے رسالے میں انگریزوں کے خلاف بے خوفی سے لکھتے رہے، یہاں تک کہ 1907 میں انہیں ایک بار پھر جیل جانا پڑا۔تاہم چند سال بعد ان کا رسالہ انگریزوں نے بند کر دیا۔اسی دوران مولانا حسرت موہانی نے بھی 1904 کے آس پاس کانگریس کی رکنیت قبول کر لی تھی۔
مولانا حسرت موہانی نے بچپن ہی سے شاعری شروع کر دی تھی۔ اگرچہ وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔حسرت موہانی، جنہیں شاعری کا شوق تھا، اپنے زمانے کے مشہور شاعروں تسلیم لکھنوی اور نسیم دہلوی کو اپنا استاد مانتے تھے اور ان سے شاعری سیکھی۔
کانگریس میں شامل ہونے کے بعد مولانا حسرت موہانی بال گنگا دھر تلک کے بہت قریب تھے اور انہیں تلک مہاراج کے نام سے پکارتے تھے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے ہی بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کے لبوں پر ‘انقلاب زندہ باد’ کا نعرہ بلند ہوا، آزادی کے سپاہیوں میں ایک لہر دوڑ گئی۔یہ نعرہ لکھنے والے آزادی کے سپاہی مولانا حسرت موہانی نے 1921 میں اپنے قلم سے ‘انقلاب زندہ باد’ لکھا۔انقلاب زندہ باد’ کا یہ نعرہ ہندوستان کی آزادی کے سب سے زیادہ گونجنے والے نعروں میں سے ایک تھا۔ اسی وقت بھگت سنگھ اور چندر شیکھر کی پارٹی ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن نے اس کی اہمیت کو سمجھا اور اس نعرے کو جدوجہد آزادی میں اپنا کر مشہور کیا۔
بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں نے سب سے پہلے 1929 میں دہلی اسمبلی پر حملہ کرتے ہوئے انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔اس کے بعد یہ نعرہ پورے ملک میں مقبول ہو گیا۔
تو یہ تھے’انقلاب زندہ باد’ اور مکمل سوراج کی تجویز پیش کرنے والے مولانا حسرت موہانی سے متعلق کچھ دلچسپ باتیں۔
بس اتنا کہکہر میں اپنی تقریر کتم کرتی/کرتا ہوں۔
جئے ہند۔
ڈاکٹر ذاکر حسین-
doctor Zakir Husain
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلم رہنماؤں کا کرادر۔۔
اسی عنوان کے تحت عظیم ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین کے متعلق معلومات کو پیش کرنے جا رہی/رہا ہوں ۔ بغور سماعت فرمائیں۔
عظیم ماہر تعلیم ڈاکٹر ذاکر حسین 8 فروری 1897 کو حیدرآباد کے ایک پٹھان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباؤ اجداد 18ویں صدی میں افغانستان سے آئے اور اتر پردیش کے ایک قصبے قائم گنج میں آباد ہوئے۔ ان کے والد کا نام فدا حسین اور والدہ کا نام نازنین بیگم تھا۔ والد کاروبار کے سلسلے میں حیدرآباد میں رہنے لگے
ء1913میں ڈاکٹر ذاکر حسین کا رابطہ آزادی پسندوں مولانا ابوالکلام آزاد اور محمد علی سے ہوا۔ ڈاکٹر ذاکر حسین ان کے خیالات سے بہت متاثر تھے۔ ان کے ذہن میں حب الوطنی کا جذبہ بھی بیدار ہوا۔ اس وقت ملک میں ہر طرف انگریزوں کے خلاف تحریکیں چل رہی تھیں۔ ان تحریکوں کا اثر ذاکر حسین پر بھی پڑا۔
ء1920 میں گاندھی جی نے انگریزوں کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کی۔ گاندھی جی نے جگہ جگہ جا کر نوجوانوں کو چیلنج کیا۔ اس سلسلے میں وہ علی گڑھ بھی پہنچے اور انہوں نے اینگلو اورینٹل کالج کے طلباء سے کہا کہ وہ انگریزی تعلیم دینے والے کالجوں اور اداروں کا بائیکاٹ کریں۔ گاندھی جی کی اپیل کا نوجوان ذاکر پر بہت اثر ہوا اور وہ عدم تعاون کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے پر راضی ہوگئے اور کالج کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا۔ جب کالج کے انگریز پرنسپل کو معلوم ہوا کہ ذاکر حسین نے کالج کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر لیا ہے تو وہ گھبرا گئے۔ انہوں نے ذاکر حسین کو بلایا اور کہا کہ ہم نے سنا ہے کہ آپ کالج کا بائیکاٹ کرنے جارہے ہیں۔ اس پر ذاکر حسین نے کہا کہ آپ نے ٹھیک سنا ہے۔ پھر انگریز پرنسپل نے ذاکر حسین کو مشورہ دینا شروع کر دیا کہ اس سے مستقبل خراب ہو جائے گا۔ لیکن ذاکر حسین نے ان کی ایک نہ سنی اور کہا کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ ہمارا مستقبل بناتا ہے یا خراب کرتا ہے۔
پھر انگریز پرنسپل نے انہیں ڈپٹی کلکٹر بنانے کا لالچ دیا جسے ذاکر حسین نے مسترد کر دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ مادر وطن ان کے لیے اہم ہے۔
انھوں نے پختہ عزم کے ساتھ اینگلو اورینٹل کالج کا بائیکاٹ کیا۔ جب ان کے ساتھی طلباء نے پوچھا کہ وہ کہاں پڑھے گا تو انھوں نے کہا کہ وہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن میں پڑھینگے ۔ اس پر ساتھیوں نے پوچھا کہ یہ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کہاں ہے؟
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں اپنا تعلیمی ادارہ کھولیں گے جو ہمارا اپنا اور ہمارے ملک کا ادارہ ہوگا۔ اس میں انگریزی حکومت کی مدد نہیں لی جائے گی۔ اس پر جب ان کے ساتھیوں نے پوچھا کہ ان کو کون پڑھانے آئے گا تو ذاکر حسین نے کہا کہ ان کے اپنے لوگ تعلیم دیں گے۔ اس ادارے میں لوگوں کے ذہنوں میں حب الوطنی کا جذبہ بیدار کیا جائے گا۔ اس پر دوستوں نے کہا کہ اس نیک کام کو جلد شروع کریں، ہم سب آپ کے ساتھ ہیں۔
اس عزم کے ساتھ انہوں نے قومی ادارہ تعلیم کے قیام کے سلسلے میں ڈاکٹر حکیم اجمل خان، ڈاکٹر انصاری اور مولانا محمد علی کے علاوہ دیگر اہم شخصیات سے ملاقات کی۔ آخرکار جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیاد 29 اکتوبر 1920 کو علی گڑھ میں ایک بہت ہی چھوٹی جگہ پر رکھی گئی۔
ہندوستان آزاد ہونے کے بعد ماہر تعلیم کے طور پر وہ 1952 میں راجیہ سبھا کے رکن بنے۔ 1957 میں بہار کے گورنر بنے اور بہار کے لوگوں کے لیے بہت کام کیا۔ 1962 میں وہ ملک کے نائب صدر بنے۔ 1963 میں، انہیں ملک کے لیے ان کے کام کے اعتراف میں سب سے زیادہ شہری اعزاز، بھارت رتن سے نوازا گیا۔ 1967 میں وہ ملک کے تیسرے اور پہلے مسلمان صدر بنے۔ ان کا انتقال 3 مئی 1969 کو دل کا دورہ پڑنے سے ہوا
اتنی معلومات دیکر میں اپنی جگہ لیتی/لیتا ہوں ۔جئے ہند
imp posts
Second Unit Test Exam Papers 2023 Download Now New
jnv 2023 ( class 6) admission test apply now new
۔ جماعت پنجم وہاٹس اپ گروپ اور جماعت ہشتم وہاٹس اپ گروپ۔ سے جڑئیے۔
Class 5 And 8 Scholarship Preparation In Urdu new
Home Work Class 1 To 8 URDU- January 2022
Second-Semester Question Paper And Answer Sheet In Urdu , Download Now
The Month Of Muharram 2021 QUIZ
World Ocean Day 2021 With Urdu Quiz
Maharashtra Day And Labor Day Quiz 2021
Aalami Yom-E-Sihat ;7 April You Have To Know
World Consumer Rights Day; With The Quiz
ثریا طیب جی-
Suraiya tayyabji
محترم صدر صاحب ،حاضرین مجلس میرے عزیز اساتذہ اور میرے ہم عمر ساتھیوں۔۔۔
اسّلام و علیکم
آزادی کے امرت مہوتسو کے موقعہ پر سب کو مبارکباد۔۔
میری تقریر کا عنوان ہے ، جنگ آزادی میں مسلمان رہنماؤں کا کرادر۔۔
۔اسی عنوان کے تحت محترمہ ثرّیا طیب جی کی ترنگا پرچم کے متعلق معلومات کو پیش کرنے جا رہی/رہا ہوں ۔ بغور سماعت فرمائیں۔
ثریا طیب جی ایک معروف فنکار تھیں۔ ان کا تعلق حیدرآباد کے ایک مشہور مسلم گھرانے سے تھا لیکن وہ اپنے غیر روایتی جدید نقطہ نظر کے لیے مشہور تھیں۔ ان کے شوہر آئی سی ایس افسر بدرالدین طیب جی نے بعد میں بیرون ملک سفارت کار کے طور پر بھی کام کیا۔ بدرالدین طیب جی کے دادا کا نام بھی بدرالدین طیب جی تھا اور وہ ایک مشہور وکیل ہونے کے ساتھ کانگریس کے رکن بھی تھے۔
مورخین کا کیا کہنا ہے؟
کیا واقعی ثریا طیب جی نے قومی پرچم ڈیزائن کیا تھا؟
فلیگ فاؤنڈیشن آف انڈیا کانگریس لیڈر نوین جندال نے بنائی ۔ ان کے مطابق یہ ثریا بدرالدین طیب جی کا ڈیزائن تھا جسے آئین ساز اسمبلی نے قومی پرچم کے لیے منظور کیا تھا۔ نوین جندال نے سپریم کورٹ میں شہریوں کو پرچم لہرانے کے حقوق کو لیکر قانونی لڑائی جیتنے کے بعد فلیگ فاؤنڈیشن آف انڈیا کا انعقاد کیا تھا۔
اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہےکہ ثریا طیب جی کا ڈیژائن ہی موجودہ پرچم میں موجود ہے۔
اتنی معلومات دیکر میں اپنی جگہ لیتی۔لیتا ہوں ۔جئے ہند
world of quotes,
Sleep Quotes , Gandhi’s Quotes , Good Morning quotes , love quotes finance quotes , Inspirational quotes , life quotes , 20 Motivational Quotes, health quotes , top 10 healthiest cereals , sunset quotes , Depression Quotes , good morning , happiness-quote , friendship quotes , quotes about peace, good night , start your day with a smile , wisdom of apg abdul kalam ,