بہلول نے جنّت بیچی۔

Photo by Martin Sanchez on Unsplash

بہلول نے جنّت بیچی۔

ایک دن بہلول دریا کے کنارے پر بیٹھا تھا اور چونکہ وہ بیکار تھا اس لیے بچوں کی طرح پھولوں کے بستر بنا رہا تھا۔

بہلول نے جنّت بیچی۔

ہارون رشید کی اہلیہ زبیدہ وہاں سے گزریں۔ بہلول کے قریب پہنچ کر پوچھا: بہلول! تم کیا کر رہے ہو؟”

بہلول نے جنّت بیچی۔

بہلول نے جواب دیا کہ جنت بنارہا ہوں ۔ “کیا تم اپنے باغات بیچتے ہو؟” ’’ہاں، میں انہیں بیچتا ہوں۔‘‘

بہلول نے جنّت بیچی۔

“کتنے دینار میں؟” “ء100 دینار میں۔”

بہلول نے جنّت بیچی۔

چونکہ زبیدہ بہلول کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتی تھی، اس لیے اس نے فوراً اپنی نوکر کو بہلول کو 100 دینار دینے کا حکم دیا، جو اس نے کیا۔

بہلول نے جنّت بیچی۔

بہلول نے کہا تمہیں رسید نہیں چاہیے؟

بہلول نے جنّت بیچی۔

’’لکھ کر لے آؤ۔‘‘ یہ کہہ کر زبیدہ اپنی طرف چلی گئی۔ بہلول نے وہ رقم غریبوں میں تقسیم کر دی۔

بہلول نے جنّت بیچی۔

اس رات خواب میں زبیدہ نے ایک بڑا باغ دیکھا، جیسا کہ اس نے جاگتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے تمام مکانات اور محلات سات منزلہ اونچے اور رنگ برنگے زیورات سے بنے اور بڑے انداز سے آراستہ تھے۔

بہلول نے جنّت بیچی۔

کہانی مکمل پڑھنے کے لیے ذیل میں لرن مور بٹن پر کلک کیجیے۔