بہلول، ایک گٹھری، جو کی روٹی، اور سرکہ

Photo by Waldemar Brandt on Unsplash

کہا جاتا ہے کہ بہلول زیادہ تر وقت قبرستان میں بیٹھ کر گزارتے تھے۔ ایک دن حسب معمول وہ وہاں گئے۔

خلیفہ حارون رشید شکار کی خواہش میں وہاں سے گزرے۔ بہلول کے قریب پہنچ کر پوچھا: بہلول تم کیا کر رہے ہو؟

’’میں ایسے لوگوں سے ملنے آیا ہوں جو غیبت نہیں کرتے، مجھ سے کوئی امید نہیں رکھتے اور مجھے کسی طرح سے تکلیف نہیں دیتے۔‘‘

“کیا آپ مجھے قیامت، سیرت اور دنیا کے سوالات و جوابات کے بارے میں کچھ بتائیں گے؟” خلیفہ نےپوچھا ۔۔۔

“اپنے غلاموں سے کہو کہ آگ بھڑکائیں اور اس کے اوپر لوہے کی ایک سلاخ رکھ دیں یہاں تک کہ وہ سرخ ہو جائے۔ خلیفہ نے حکم دیا اور اس پرعمل کیا گیا۔

“اے ہارون! میں اس گرم سلاخ پر ننگے پاؤں کھڑا ہو کر اپنے بارے میں بتاؤں گا۔ میں نے جو کچھ کھایا اور پہنا ہے وہ بیان کروں گا۔ اس کے بعد، آپ بھی میری طرح ننگے پاؤں کھڑے ہوں، اپنا تعارف کروائیں، اور جو کچھ آپ نے کھایا اور پہنا ہے اسے بیان کریں۔”

پھر بہلول گرم سلاخ پر کھڑے ہوے اور جلدی سے بولے، “بہلول، ایک گٹھری (پھٹے ہوئے کپڑوں کا)، جو کی روٹی اور سرکہ۔” وہ یہ کہہ کر فوراً چلے گیے۔ ان کے پاؤں بالکل نہیں جلے تھے۔

جب خلیفہ ہارون کی باری آئی تو وہ اپنا تعارف نہ کرا سکے جس طرح وہ چاہتے تھے، ان کے پاؤں جل گئے اور وہ گر گیے۔

“اے ہارون! قیامت کے سوال و جواب اس طرح ہیں۔ جو لوگ اللہ کی عبادت کرتے ہیں، قناعت کرتے ہیں، دنیا کے درجات اور عزت کے لالچ سے دور رہتے ہیں، وہ آسانی سے صراط مستقیم سے گزر جاتے ہیں، لیکن جو دنیاوی شان و شوکت سے وابستہ ہیں، وہ مصیبتوں میں گرفتار ہوں گے۔”

بہلول نے جنت فروخت کی  وقعیہ پڑھنے کے لیے ذیل میں کلک کیجیے۔